Friday, January 29, 2016

"پاکستان کا نظریاتی المیہ"


وزیراعظم پاکستان جناب میاں نواز شریف کی جانب سے یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے چند ایک نکات پرعمل درآمد سست روی کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماسوائے چند نکات کے، جن میں سے بیشتر کا تعلق پاک فوج اور حساس اداروں سے ہے، علاوہ کسی بھی نکتے پر عمل نہیں ہو رہا ہے بالخصوص جوابی بیانیے کے نکتے پر۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی یہ مشورہ دہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مذہبی دہشت گردی اور اس کے بیانیے کا سدباب صرف سیکولر اقدار کے اپنانے میں ہی ہے جب کہ ملک کی اکثریت اس بات سےمتفق نہیں مگر یہ بھی نہیں جانتی کہ آخردہشت گردی کے خلاف بیانیہ دے گا کون؟ علماءیا پھر ریاست؟
اس سوال کے جواب کے لیے تاریخ کے چند اوراق پلٹنے ہونگے۔
قائداعظم کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی حکمران اس بات کو نہیں سمجھ پایا کہ اسلامی ریاست کی جدید تشریح کیوںضروری ہے۔اسی لیے قائد نے "اسلامی تعمیرِجدید" یعنی Department of Islamic Reconstruction کی بنیاد رکھی۔ جسے بدقسمتی سے چلنے ہی نہیں دیا گیا۔ یہاں یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ اس ادارے کا نام مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کی کتاب "Reconstruction of Religious Thought in Islam" سے بہت مشاہبت رکھتا ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ علامہ کےبرعکس قائد کا امتحان اس لحاظ سے مختلف اور پیچیدہ تھا کہ اس میں ان نظریات جوعلامہ نے اپنے کام میں پیش کیے تھے ان کو ایک قوم اور ریاست کے اندر عملی طور پرزندہ کرکے دکھانا تھا۔ اس میں کامیابی کی دو ہی صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ قائد قیامِ پاکستان کے بعد ایک لمبا عرصہ زندہ رہتے یا ان کے بعد مملکتِ خداداد کو انہی کیطرح کا کوئی خداداد رہنما نصیب ہو جاتا۔ بد قسمتی کہ ان دونوں میں سے کوئی بھیصورت برنہ آئی اور ہر آنے والی پاکستانی نسل کے ذہن میں شناخت کے سوال پر مزیددھند چھائی رہی۔
یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ قائد کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ پاکستان کی نظریاتی اساسجوکہ تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ کے سیاسی نعروں میں سنائی دیتی تھی اس کاایک ریاست کے اندر عملی اظہار اس وقت تک ناممکن رہے گا جب تک کہ اس اساس کو ایک آئینیشکل دے کر ریاست اور معاشرے کی تعمیر اس پر نہیں کر دی جاتی۔
دنیا کو ایک جدیداسلامی فلاحی ریاست کا تصور تو کیا دینا ۔۔۔ ۸۰ کی دہائی میں خطے میںہونے والی تزویراتی تبدیلیوں اوران کے ردعمل کے نتیجے میں بنائی جانے والی داخلی وخارجہ پالیسیوں نے اسلامی ریاست کا وہ تصور نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈالا کہ جو شاید۵۰۰ سال پہلے تو نافذ العملہوتا مگرکسی بھی طرح وہ ۲۱ ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ تھا کیونکہ اس دور میں جہاد اورخلافت کا نعرہ لگانے والوں کے مقاصد سراسر سیاسی تھے نہ کہ اسلامی۔ چونکہ انعناصرکو روس کے خلاف سیاسی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا تھا لہذا ان کی اندر سے ایک دور رس اور اسلام فہم قیادت کا ابھرنا ممکن نہ تھا۔ روس کے افغانستان سے انخلا کےبعد جس طرح یہ عناصر آپس میں دست و گریباں رہے وہ اس حقیقت کی گواہی دینے کے لیےکافی ہے۔
آج تین دہائیوں کے بعد جب ایک بار پھر سیاسی وجوہات کی بنا پر جب ریاست اپنے مفادات کے لیے انہی عناصر کےخلاف برسرپیکار ہے تو جہاد اور اسلام ہی ان عناصر کے حق میں اور ریاست کے خلاف سب سے بڑی قوت ثابت ہو رہے ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ کیا یہ عناصر کسی کے لیے کرایے کے قاتلوں کا کردار ادا کر رہے ہیں جیسا کہ بھارتی سلامتی امور کے مشیر اجیت دووال نے طالبان کو قرار دیا تھا یا وہ ابھی تک اپنی اسی فکر کو سیاسی حقیقت کا روپ دینا چاہ رہے ہیں، وہ بیانیہ Narrative اسلام کا ہی استعمال کر رہے ہیں۔ جب تک اس کا توڑ نہیں ہوتا تب تک ان عناصر کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ مزید بدقستمی یہ ہے کہ یہ بیانیہ اسلام کے اولین دور میں اٹھنے والے فتنہِ خوارج سے مشاہبت رکھتا ہے مگر اس کے باوجود اسی کو آج پوری دنیا میں بالعموم اسلام کا اصل بیانیہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دہشت گردوں کی علمی یا نظریاتی برتری نہیں بلکہ ریاست کی انتہا درجے کی نالائقی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ریاستِ پاکستان کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ خود کوعلمیوعملی طور پرایک اسلامی نظریاتی ریاست ثابت نہیں کر سکی ہے۔اس ناکامی کی وجہ سے ریاست کے لیے اپنا نظریاتی جواز قائم رکھنا سب سے بڑا مسلہ بن گیا ہے۔ اب اس نظریےکی تشریح یا تو دہشت گرد کر رہے ہیں یا پھرلادینیت کے قریب ترین سیکولرطبقہ۔ نوجوان طبقے کی ایک غالب اکثریت دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے واقعات یاتبدیلیوں کا جواب محض ردعمل کے طور پر ہی دیتے ہیں اور اس کا اندازعام طورپراتنا جارحانہ ہوتا ہے جو کہ بعد ازاں خود ان کے لیے یا معاشرے لے لیے نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کا بھی باعث بنتا ہے۔
اپنے بقاء کے لیے پاکستان کی ریاست کو اسلام کے سرکاری مذہب ہونےکا کماحقہ ثبوت دینا ہو گا اور اس کے لیے ریاستی سطح پر ایک بیانیہ ترتیب دینا ہوگا جوکہ نہ صرف اسلام کے درخشندہ اصول جیسے کہ جہاد اور خلافت کی جدید تشریح کرے بلکہ اس تشریح کو سیاسی ماڈل میں ڈھالنے کے لیے ریاستی سطح پرآئینی اقدامات کیے جائیں۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب ریاست اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے، حالت یہ ہے کہ دفاعی اور تزویراتی سمجھ بوجھ رکھنے والے علماء اور دانشور مخصوص مسلک کی جانب سے ٹی ٹی پی کو خوارج قرار دینے کے معاملات میں غیرضروری طور پر نوجوانوں کو تقسیم کر رہے ہیں اور دشمن کا کام آسان کر رہے ہیں تو ایسے میں کوئی بھی خوابِ خرگوش میں ڈوبے حکمرانوں کو کوئی ان کی آئینی و ملی ذمہ داری یاد نہیں کروا رہا۔ سادہ سی سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر تمام مسالک اس دہشت گرد ٹولے کو خوارج قرار دے بھی دیں تو کیا اس کی کارروائیوں میں کوئی کمی آ جائے گی جب تک کہ یہ کام ریاست خود نہ انجام دے؟ مگر ریاست یہ کام صرف اسی صورت میں کر سکتی ہے کہ جب اس کے پاس اس تمام بیانیے کا جواب موجود ہو جو دہشت گرد گروہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کے اس نظریاتی المیے کو ختم کرنے کا ایک یہی طریقہ ہے۔ سوشل میڈیا پر مذہب سے متعلق مباحث سے ہو سکتا ہے کہ کسی فرد کا قد کاٹھ بڑھ جائے مگر اس سے اس المیے میں کوئی کمی نہیں آئے گی لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ وقت پر دباو ڈالا جائے کہ وہ اس تمام بحث کو ریاستی سطح پر ایک جوابی بیانیے کی صورت میں سمیٹے جس کی بنیاد اسلامی ہو نہ کہ سکیولر۔

No comments:

Post a Comment